Monday, June 24, 2024

تیرا لباس ہوں میں اور میرا لباس ہے تو

 

تیرا لباس ہوں میں اور میرا لباس ہے تو

Poet: وصی شاہ 

میں خوش نصیبی ہوں تیری مجھے بھی راس ہے تو
تیرا لباس ہوں میں اور میرا لباس ہے تو

عجیب شے ہے محبت کے ہم کہاں جائیں
تیرے پاس ہوں میں بھی میرے بھی پاس ہے تو

میں نے خود کو فراموش کیا تیرے لیے
عام ہے سارا جہاں میرے لیے خاص ہے تو

بند ہونٹوں پر میرے ریت جمی جاتی ہے
میرے پاس ہے پھر بھی میری پیاس ہے تو

درمیان تیرے میرے جب سے لوگ آنے لگے
اس کے بعد سے میں تنہا اور بے ایس ہے تو

زمانہ ہم کو جدا کر سکے نہیں ممکن
محبت میں جو ناخن ہوں میں تو ماس ہے تو

دور ہو کر بھی نہیں ہے کوئی دوری
تیرے قریب ہوں میں میرے بھی پاس ہے تو

یہ کون تیرے میرے درمیان ہے جاناں
کے میں بے درد میں ہوں اور محو یاس ہے تو

زندگی میری تیرے گرد گھومتی ہے فقط
عام ہے سارا جہاں میرے لیے ایک خاص ہے تو

عجیب شے ہے محبت میں کہیں چلا جاؤں
تیرے قریب ہوں میں اور میری پیاس ہے تو

کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا

 

کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا

Poet: Wasi Shah 

کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا
تو بڑے پیار سے چاؤ سے بڑے مان کے ساتھ

اپنی نازک سی کلائی میں چڑھاتی مجھ کو
اور بے تابی سے فرصت کے خزاں لمحوں میں

تو کسی سوچ میں ڈوبی جو گھماتی مجھ کو
میں تیرے ہاتھ کی خوشبو سے مہک سا جاتا

جب کبھی موڈ میں آ کر مجھے چوما کرتی
تیرے ہونٹوں کی میں حِدّت سے دِہک سا جاتا

رات کو جب بھی نیندوں کے سفر پر جاتی
مرمریں ہاتھ کا اِک تکیہ بنایا کرتی

میں تیرے کان سے لگ کر کئی باتیں کرتا
تیری زُلفوں کو تیرے گال کو چوما کرتا

جب بھی تو بندِ قبا کھولنے لگتی جاناں
اپنی آنکھوں کو تیرے حسن سے خیرہ کرتا

مجھ کو بے تاب سا رکھتا تیری چاہت کا نشہ
میں تیری روح کے گلشن میں مہکتا رہتا

میں تیرے جسم کے آنگن میں کھنکتا رہتا
کچھ نہیں تو یہی بے نام سا بندھن ہوتا

یوسف نہ تھے مـــگر سرِ بازار آ گئے

 

یوسف نہ تھے مـــگر سرِ بازار آ گئے

Poet: احمد فراز 

یوسف نہ تھے مـــگر سرِ بازار آ گئے
خوش فہمیاں یہ تھیں کہ خریدار آ گئے

ھم کج ادا چراغ کہ جب بھی ہوا چلی
طاقوں کو چھوڑ کر سرِ دیوار آ گئے

پھر اس طرح ہُوا مجھے مقتل میں چھوڑ کر
سب چارہ ساز جانبِ دربار آ گئے

اَب دل میں حوصلہ نہ سکت بازوں میں ہے
اب کے مقابلے پہ میرے یار آ گئے

آواز دے کے زندگی ہر بار چُھپ گئی
ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آ گئے

سورج کی روشنی پہ جنہیں ناز تھا فراز
وہ بھی تو زیرِ سایۂ دیوار آ گئے

یہ عمر بھر کی مسافت ہے دل بڑا رکھنا

 

یہ عمر بھر کی مسافت ہے دل بڑا رکھنا

Poet: احمد فرازؔ 

خبر تھی گھر سے وہ نکلا ہے مینہ برستے میں
تمام شہر لئے چھتریاں تھا رستے میں

بہار آئی تو اک شخص یاد آیا بہت
کہ جس کے ہونٹوں سے جھڑتے تھے پھول ہنستے میں

کہاں کے مکتب و مُلّا، کہا ں کے درس و نصاب
بس اک کتابِ محبت رہی ہے بستے میں

ملا تھا ایک ہی گاہک تو ہم بھی کیا کرتے
سو خود کو بیچ دیا بے حساب سستے میں

یہ عمر بھر کی مسافت ہے دل بڑا رکھنا
کہ لوگ ملتے بچھڑتے رہیں گے رستے میں

ہر ایک در خورِ رنگ و نمو نہیں ورنہ
گل و گیاہ سبھی تھے صبا کے رستے میں

ہے زہرِ عشق، خمارِ شراب آگے ہے
نشہ بڑھاتا گیا ہے یہ سانپ ڈستے میں

جو سب سے پہلے ہی رزمِ وفا میں کام آئے
فراز ہم تھے انہیں عاشقوں کے دستے میں

مجھ سے ملتے ہیں تو ملتے ہیں چرا کر آنکھیں

 

مجھ سے ملتے ہیں تو ملتے ہیں چرا کر آنکھیں

Poet: احمد فرازؔ 

مجھ سے ملتے ہیں تو ملتے ہیں چرا کر آنکھیں
پھر وہ کس کے لیے رکھتے ہیں سجا کر آنکھیں

میں انہیں دیکھتا رہتا ہوں جہاں تک دیکھوں
ایک وہ ہیں جو دیکھیں نا اٹھا کر آنکھیں

اس جگہ آج بھی بیٹھا ہوں اکیلا یارو
جس جگہ چھوڑ گئے تھے وہ ملا کر آنکھیں

مجھ سے نظریں وہ اکثر چرا لیتے ہیں فراز
میں نے کاغذ پہ بھی دیکھی ہیں بنا کر آنکھیں

اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے

 

اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے

Poet: احمد فرازؔ 

اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے
مگر چراغ نے لو کو سنبھال رکھا ہے

محبتوں میں تو ملنا ہے یا اجڑ جانا
مزاجِ عشق میں کب اعتدال رکھا ہے

ہوا میں نشہ ہی نشہ، فضا میں رنگ ہی رنگ
یہ کس نے پیرہن اپنا اچھال رکھا ہے

بھلے دنوں کا بھروسا ہی کیا رہیں نہ رہیں
سو میں نے رشتہِ غم کو بحال رکھا ہے

ہم ایسے سادہ دلوں کو وہ دوست ہو کہ عدو
سبھی نے وعدۂِ فردا پہ ٹال رکھا ہے

بھری بہار میں اک شاخ پر کھلا ہے گلاب
کہ جیسے تو نے ہتھیلی پہ گال رکھا ہے

فراز عشق کی دنیا تو خوبصورت تھی
یہ کس نے فتنہ ہجر و وصال رکھا ہے

آہٹ نے ہی دیا ہے جھٹکا عذاب کا

 

آہٹ نے ہی دیا ہے جھٹکا عذاب کا

Poet: غلام عباس ساغر 

پاؤ سے ہی ہے عیاں حسن جناب کا
رُخ تو ہو گا کوئی شیریں جام شراب کا ؟

لگتا ہے کسی وادی ِ زنجیل کے باسی ہیں
چرچا ایسے تو نہیں عام اُنکے شباب کا

زلف آنکھ چہرے ہنسی کی کیا بات کرتا
آہٹ نے ہی دیا ہے جھٹکا عذاب کا

وہ سامنے نہیں میں سوچ تو سکتا ہوں
وہی ہیں حرفِ آخر حسن کے نصاب کا

آواز سن کر ہی ساغر تو آخر پگل گیا
دیکھ لیتا تو بول جاتا عشر کے حساب کا
 

Rate it: 

Saturday, June 22, 2024

تاریکیوں کو آگ لگے اور دیا جلے

 

تاریکیوں کو آگ لگے اور دیا جلے

Poet: تہذیب حافی
تاریکیوں کو آگ لگے اور دیا جلے
یہ رات بین کرتی رہے اور دیا جلے

اس کی زباں میں اتنا اثر ہے کہ نصف شب
وہ روشنی کی بات کرے اور دیا جلے

تم چاہتے ہو تم سے بچھڑ کے بھی خوش رہوں
یعنی ہوا بھی چلتی رہے اور دیا جلے

کیا مجھ سے بھی عزیز ہے تم کو دیے کی لو
پھر تو میرا مزار بنے اور دیا جلے

سورج تو میری آنکھ سے آگے کی چیز ہے
میں چاہتا ہوں شام ڈھلے اور دیا جلے

تم لوٹنے میں دیر نہ کرنا کہ یہ نہ ہو
دل تیرگی میں گھیر چکے اور دیا جلے

تمہیں حسن پہ دسترس ھے محبت محبت بڑا جانتے ہو

 

تمہیں حسن پہ دسترس ھے محبت محبت بڑا جانتے ہو

Poet: تہذیب حافی

تو پھر یہ بتاؤ کہ تم اسکی
آنکھوں کے بارے میں کیا جانتے ہو

یہ جغرافیہ فلسفہ سائیکولوجی
سائنس ریاضی وغیرہ

یہ سب جاننا بھی اہم ھے
مگر اسکے گھر کا پتہ جانتے ہو

خاک ہی خاک تھی اور خاک بھی کیا کچھ نہیں تھا

 خاک ہی خاک تھی اور خاک بھی کیا کچھ نہیں تھا

Poet: تہذیب حافی

میں جب آیا تو میرے گھر کی جگہ کچھ نہیں تھا

کیا کروں تجھ سے خیانت نہیں کر سکتا میں
ورنہ اُس آنکھ میں میرے لیے کیا کچھ نہیں تھا

یہ بھی سچ ہے کہ مجھے اس نے کبھی کچھ نہ کہا
یہ بھی سچ ہے کہ اس عورت سے چھپا کچھ نہیں تھا

اب وہ میرے ہی کسی دوست کی محبوبہ ہے
میں پلٹ جاتا مگر پیچھے بچا کچھ نہیں تھا

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

 یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اع...