اے خدا عجب ہے ترا جہاں مرا دل یہاں پہ لگا نہیں


اے خدا عجب ہے ترا جہاں مرا دل یہاں پہ لگا نہیں

جہاں کوئی اہل وفا نہیں کسی لب پہ حرف دعا نہیں

بڑا شور تھا ترے شہر کا سو گزار آئے ہیں دن وہاں

وہ سکوں کہ جس کی تلاش ہے ترے شہر میں بھی ملا نہیں

یہ جو حشر برپا ہے ہر طرف تو بس اس کا ہے یہی اک سبب

ہے لبوں پہ نام خدا مگر کسی دل میں خوف خدا نہیں

جو ہنسی ہے لب پہ سجی ہوئی تو یہ صرف ضبط کا فرق ہے

مرے دل میں بھی وہی زخم ہیں مرا حال تجھ سے جدا نہیں

یہ جو دشت دل میں ہیں رونقیں یہ تری عطا کے طفیل ہیں

دیا زخم جو وہ ہرا رہا جو دیا جلا وہ بجھا نہیں

اے خدا عجب ہے تری رضا کوئی بھید اس کا نہ پا سکا

کہ ملا تو مل گیا بے طلب جسے مانگتے تھے ملا نہیں

وہ جو حرف حق تھا لکھا گیا کسی شام خون سے ریت پر

ہے گواہ موجۂ وقت بھی کہ وہ حرف اس سے مٹا نہیںعنبرین حسیب عنبر

عنبرین حسیب عنبر